
چند روز قبل ہمارے گھر کی ملازمہ چھٹیاں لے کر گاﺅں گئی تو اپنی جگہ اپنی بہن کی بیٹی کو ہمارے ہاں رکھوا گئی ۔ وہ بچی جس کا نام ثمینہ ہے ، محض بارہ سال کی ہے اور گھر کے تمام کام پھرتی سے کر لیتی ہے۔ اسے کام کرتا دیکھ مجھے یہ خیال آیا کہ اتنی کم عمر میں جب بڑے گھروں کے بچے کھیلتے کودتے اور اسکول جاتے ہیں یہ بچی گھروں کے کام کاج میں لگی ہے، کیا گزرتی ہوگی اس پر اور کیا جذبات ہونگے اس کم سن بچی کے۔ لیکن اس سے بات کرکے یہ اندازہ ہوا کہ اس بچی کو تو معلوم ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی ظلم ہو رہا ہے کیوں کہ اس کے آس پاس رہنے والی باقی تمام بچیاں بھی گھروں میں کام کرتی ہیں اور اپنے گھر کو دو وقت کی روٹی دینے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں ۔ یہ سب جان کر میں سوچنے پر مجبورہوگئی کہ کیا اپنے حقوق کے بارے میں ناآشنا ہونابھی ایک طرح کی نعمت ہے؟ کیا لاعلمی انسان کو خوش اور مطمئن رکھ سکتی ہے اور ساتھ ہی یہ کہ ہم ان حالات کو بہتر بنانے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
ترقی یافتہ ممالک میں چائلڈ لیبر یعنی بچوں سے مشقت کرانا ایک بڑا جرم ہے جس کی سخت ترین سزا دی جاتی ہے ۔ ہمارے ملک کے قانون میں بھی چھوٹے اور معصوم بچوں سے کام کاج کرانا جرم ہی تصور کیا جاتا ہے ۔ قانون کے مطابق ۱۴ سال سے کم عمر بچوں سے مشقت والا کام لینا غیر قانونی ہے ۔ فیکٹریز ایکٹ 1934، ویسٹ پاکستان شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹس آرڈنینس 1969، ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 ، دا بانڈیڈ لیبر سسٹم ایبولیشن ایکٹ 1992اور پنجاب کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 1994وہ اہم قوانین ہیں جنھیں بچوں کے حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ البتہ ملک کے دیگر قوانین کی طرح ان پر عمل د آمد نہیں کرایا جاسکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں گیارہ ملین کے قریب بچے جن کی عمر چار سے چودہ سال کے درمیان ہے، کارخانوں اور فیکٹریوں میں جسمانی مشقت کے کام انجام دے رہے ہیں۔
گاﺅں اور چھوٹے شہروں میں تو معاملات اور بھی خراب ہیں جہاں بچوں سے ناصرف انتہائی مخدوش حالات میں کام کرایا جاتا ہے اور اکثر مواقعوں پر ان کی مزدوری بھی انہیں نہیں دی جاتی ۔ کم عمر بچوں سے محنت اور مشقت کروائے جانے کی بڑی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری ہے ۔ گھر کا خرچ پورا کرنے کے لیے غریب ماں باپ کو اپنے بچوں کو مزدوری کرنے اور پیسے کمانے کے لیے باہر بھیجنا پڑتا ہے ۔ اس کے علاوہ شعور اور تعلیم کی کمی بھی ملک میں بچوں پر ہونے والے ظلم کی ایک بڑی وجہ ہے ۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی نجی ادارے اور ویلفیئر سینٹرز اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ آل پاکستان فیڈریشن آ ف ٹریڈ یونیئن نے بھی نیشنل چائلڈ لیبر سیل تشکیل دیاہے جو مختلف پراجیکٹس پر کام کرر ہا ہے۔ ساتھ ہی غیر ملکی ادارے اور حکومتی مشینری بھی اس مسئلے سے متعلق بات چیت کرتی رہتی ہے البتہ ابھی تک اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے ۔ بچے ملک کا مستقبل ہیں ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہم سب کی برابر کی ذمہ داری ہے ۔ ہمیں بھی اس امر میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومتی سطح پر مسائل کے حل ہونے کا انتظار کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے طور اپنے ماحول کو بہتر بنانے اور اپنے اور اپنے سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ان کے حقوق دلانے میں اپنی ذمہ داری ادا کریں۔